غروبِ محبت کی کہانی -
میں اسے ہر بات سکھاؤں گا… ہر وہ بات جو اسے دھوکے سے بچا سکے… میں اسے سکھاؤں گا کہ انسانوں پر کسی صورت اعتبار نہیں کرنا… عورت پر خاص کر… میں اسے بتاؤں گا کہ یہ اپنی زندگی میں آنے والے ہر انسان کے دوسرے رخ سے خود کو آگاہ رکھے… اسے معلوم ہونا چاہئے کہ چھپی ہوئی صورتیں کیا ہوتی ہیں… خاص کر اسے یہ جان لینا چاہئے کہ دنیا میں محبت نام کا کوئی وجود نہیں ہے… محبت کے نام پر جو کئے جاتے ہیں وہ سب ڈرامے اور شعبدے ہوتے ہیں… اور معلوم کرنا ہے حوریہ کہ مجھے اسے کیا کیا سکھانا ہے؟؟
ساکت پتلیوں اور بے جان ہوئی جان کے ساتھ حوریہ اس کی ہر بات کے آرپار ہو گئی… اور آرپار اس نے خود کو ہی دیکھا،اس نے تیزی سے سر نفی میں ہلایا… پاگلوں کی طرح… اگر اور معلوم کر لیتی تو جو بچا تھا وہ سکون بھی جاتا،پھر وہ باقی ماندہ زندگی کیسے گزارتی… اگر اسے سب معلوم ہو جاتا تو راتوں کے آخری پہروں میں بھی نہ سو سکتی۔
تین افراد پر مشتمل وہ گھر صرف دو افراد کا ہوا… حوریہ ہر گزرتے دن کے ساتھ منفی ہونے لگی… ایک ایسی عورت جسے ہر گزرتے وقت کے ساتھ ناپسند کیا جا رہا تھا… بنا کسی وجہ کے… بنا کسی ثبوت کے… اور اگر ٹھوس وجہ مل ہی جاتی… اور اگر کوئی ثبوت ہاتھ میں آ ہی جاتے… تو… تو حوریہ کہاں جاتی…؟؟
وہ جس شخص سے مسلسل محبت کئے جا رہی تھی وہ اسے مسلسل ناپسند کئے جا رہا تھا… دن اور رات ایک جیسے ہو چکے تھے… بے معنی اور بے لطف… وہ دونوں ایک ہی جگہ ایک ہی تعلق سے جڑے الگ الگ سمتوں میں جا رہے تھے… ہم راہی اگر اپنی سمت بدل لے تو صحراؤں میں بھٹک کر دیوانہ ہو کر مرنے کو جی چاہتا ہے۔
حوریہ کا بھی یہی جی چاہتا تھا وہ ایسے دیوانی ہو کر مر جائے کہ وہ اس کی موت پر ہی بلبلا اٹھے… مذاق میں ہی سہی روئے تو… یاد تو کرے… نام تو لے… پکارے تو سہی کچھ تو کرے۔
ایک ہی موسم میں انہوں نے چند سال اور گزار دیئے،شادی کی اس ڈوری پر سب گرہیں حوریہ نے ہی لگائی تھیں،وہ گرہ لگاتے لگاتے تھک چکی تھی… پھر بھی ہر بار ایک نئی گرہ لگا دیتی تھی۔
”پاپا! ہمارے گھر بی بی ڈول کب آئے گا؟“ حسام اپنے پاپا کی گود میں بیٹھا پوچھ رہا تھا،کچن میں کھانا بناتے اس کے ہاتھ رک گئے حسام اس سے بہت دفعہ پوچھ چکا تھا۔ آجکل وہ ایسی ہی باتیں کر رہا تھا،سکول سے واپسی پر جب وہ دونوں واک کرتے ہوئے گھر کی طرف آ رہے ہوتے تھے تو یہ اس کا پسندیدہ موضوع ہوتا تھا بات کرنے کیلئے… شاید اس کے کلاس فیلوز اپنی چھوٹی بہنوں کی باتیں کرتے تھے اس سے… اور اسے نت نئی کہانیاں اور شرارتیں سناتے تھے،وہ تنگ آ گئی تھی روز روز اس کے ایک ہی سوال پوچھنے سے… اور اب وہ اپنے پاپا سے بھی پوچھ رہا تھا۔
”ڈول…“ وہ اُلجھ کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔
”یس… ہماری ڈول… پنک فراک والی… جو مجھ سے باتیں بھی کرے… جسے پرام میں بٹھا کر ہم گھومانے لے جائیں اور اگر کبھی وہ سو رہی ہو تو میں اس کے ہاتھ پر چٹکی کاٹ لوں تاکہ وہ اٹھ کر رونے لگے… پھر وہ روئے گی اور میں ہنسوں گا… ایسے… ہا ہا ہا… ہاہا۔“
”ہمیں کوئی ڈول نہیں چاہئے… حسام میری جان ہے اور جان صرف ایک ہی میں ہوتی ہے۔
“
”پھر میں کس سے کھیلوں گا۔“
”مجھ سے…“
”لیکن آپ تو بڑے ہیں… اور آپ ہر وقت میرے پاس بھی نہیں ہوتے… وہ ہر وقت میرے ساتھ رہے گی۔“
”اگر تم چاہو تو میں ہر وقت تمہارے ساتھ رہونگا،کوئی کام نہیں کرونگا… میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں… اتنی…“
اس نے اپنے دونوں بازو پھیلائے… اور اتنی محبت میں سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔
”میں بھی…“ حسام نے بھی اسی کے انداز سے بازو پھیلائے
”تمہیں پتا ہے حسام دنیا میں صرف ایک ہی محبت ہوتی ہے باپ اور بیٹے کی… تمہاری اور میری…“
”اور ماما کی؟ ماما کہتی ہیں وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں،بہت بہت… وہ بھی آپ جتنی ہی محبت کرتی ہیں… ہے نا؟؟“
”وہ محبت کر لیتی اگر وہ ایک عورت نہ ہوتی…“ وہ کہے بنا رہ نہیں سکا… وہ جانتی تھی وہ کوئی ایک بات ایسی ضرور کہے گا اور اس نے کہہ دی… ایک بیٹے سے اس کی ماں سے متعلق،کچن سے تیزی سے نکل کر اس نے حسام کو اس کی گود میں سے اٹھایا اس کے گال چومے اور دیر تک سینے سے لگائے رکھا۔
”میرے بیٹے کو تو میری محبت پر یقین کرنے دو۔“
”اسے کسی کا بھی یقین نہیں کرنا چاہئے…“
”جیسے تم نے نہیں کیا… ان سالوں میں مجھے ٹھیک سے معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ مجھے ایسا کیا کرنا چاہئے کہ وہ ہو جائے جو تمہیں چاہئے،تم نے خود تو مجھے محبت دی نہیں تم چاہتے ہو مجھے حسام کی محبت بھی نہ ملے تم چاہتے ہو وہ تمہارے جیسا بن جائے؟“
”نہیں! میں چاہتا ہوں وہ مجھ جیسا نہ بنے… اپنے باپ کی طرح اندھا اور برا نہ بنے… ہر ایک کے ہاتھوں الو نہ بن سکے،وہ آنکھیں کھول کر دنیا کو دیکھے پرکھے… اس کے ہر رنگ ڈھنگ کو… اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اسے صرف کتابیں ہی نہیں پڑھنی اسے لوگوں کو بھی پڑھنا ہے… اُسے میں،میں نہیں بننے دونگا،میں اسے چھپ چھپ کر گھٹ گھٹ کر روتا ہوا نہیں دیکھ سکوں گا… تم اس معاملے سے دور رہو… میں اپنے بیٹے کو دکھی بننے نہیں دونگا…“
”چھپ چھپ کر روتے ہو تم…؟؟ کیوں کس لئے؟؟ کس کیلئے؟؟“
”یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔
“
”میرا مسئلہ کوئی بھی نہیں تھا پھر بھی سبھی مسئلے میرے ہی لئے بنے… مجھے معلوم کرنا ہے کہ میں کون ہوں… حسام کی ماں بھی نہیں ہوں تو کون ہوں… کیا ہوں تمہارے لئے؟؟ میں مان لیتی ہوں کہ میں بری عورت ہوں… بہت بری ہونگی،مگر میں بدکردار نہیں ہوں… میں نے دھوکے دیئے ہونگے مگر محبت کے نام پر تمہیں کوئی دھوکا نہیں دیا،میں اپنی محبت میں تمہارے لئے کھڑی ہوں… کتنی بار سنو گے… آخر کتنی بار… تمہیں تو رحم بھی نہیں آتا… ایسے تو نہیں تھے تو… میرے لئے ہی ایسے بن گئے… میرے لئے ہی کیوں… مجھے گھر سے نکال کر باہر پھینک دو… لیکن اب بس کرو… اتنی سزا کاٹی ہے اس محبت کیلئے جو میں نے تم سے کی…تمہاری بیوی تنہا رہتے رہتے تھک چکی ہے… وہ مردہ ہونے کو ہے اور تم اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہو،کیسے مسیحا ہو؟ اپنی بیوی کا علاج نہیں کر سکتے؟“
حسام اس کے ہسڑیائی انداز پر سہم گیا۔
”نفرت کرتے ہو مجھے سے؟ تمہیں نفرت کرنی بھی چاہئے… لیکن صرف مجھ سے… ہر عورت سے نہیں… ہر عورت میں قدسیہ بھی شامل ہے… اور وہ نفرت کیلئے نہیں ہے… تمہیں معلوم ہونا چاہئے تم کیا کر رہے ہو… کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تم سے محبت کا اتنا بھیانک انجام ہوگا… لیکن اگر مجھے معلوم ہوتا تو بھی میں یہی کرتی… تمہاری محبت میرے وجود میں ایسے اتری کہ میں مر تو سکتی تھی تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی تھی… مجھے مر ہی جانا چاہئے تھا…“
وہ حسام کو اس سے لے کر جا چکا تھا… وہ روئے یا چلائے اسے فرق نہیں پڑتا تھا… جب وہ اس کی زندگی سے جا نہیں رہی تھی تو وہ سب کچھ کرنے میں حق بجانب تھا… وہ کسی بھی عورت کو اپنی زندگی میں شامل کرنا نہیں چاہتا تھا۔
وہ محبت کے کتنے ہی منتر اس پر پڑھ کر کیوں نہ پھونک دیتی اس پر اثر ہونے والا نہیں تھا… جب محبت کا اولین طلسم ٹوٹتا ہے تو پھر کوئی اور جادو نہیں چلتا… کسی اور کا جادو نہیں چلتا یہ طلسم حوریہ نے توڑا تھا۔
………………………
میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کیلئے میں نے اپنا ایک قیمتی سال ضائع کیا تھا میں اسے ضائع ہی کہونگی کیونکہ میڈیکل کیلئے میرا میرٹ نہیں بنا تھا اور مجھے دوبارہ پیپرز دے کر میڈیکل کیلئے میرٹ بنانا تھا،میرٹ پر آنے کیلئے میں نے دن رات محنت کی اتنی پڑھائی کہ مجھے یقین تھا کہ اب میڈیکل کالج کے سٹاف کو مجھے اعزاز کے ساتھ کالج میں سیٹ دینی ہی ہوگی اور وہ فخر سے کہتے پھریں گے کہ حوریہ ندیم ان کے کالج کی طالبہ ہے… حوریہ ندیم ان کے کالج کی طالبہ بن گئی اور اعزاز اُسے خاندان بھر سے ملا… میڈیکل کالج کی طالبہ بننے پر…
جہاں سب آرٹ،ڈیزائن اور میڈیا سڈیز کر رہے تھے ایک میں ہی ہونہار تھی خاندان بھر میں جو ڈاکٹر بننے جا رہی تھی… مجھ سے متاثر ہونے والوں میں سب سے آگے میرے ڈیڈ تھے انہوں نے مجھے کالج آنے جانے کیلئے نئی زیرو میٹر کار گفٹ کی،وہ کار جو مجھ سے بڑی نمرہ آپی کے پاس بھی نہیں تھی… ہونہار بچوں کو کچھ تو زیادہ فائدہ ملنا چاہئے اور ان کے ذرا سے زیادہ نخرے بھی اٹھائے جانے چاہئے… تو میرے اٹھائے گئے۔
اس ایک سال کے چکر میں،میں قدسیہ سے پورے دو سال پیچھے رہ گئی وہ دو سال مجھ سینئر ہو گئی،وہ ویسے بھی مجھ سے ایک سال سینئر ہی تھی سکول میں،ہماری دوستی سکول بس سے شروع ہوئی تھی اور دیکھنے والوں کیلئے وہ کافی پختہ دوستی تھی… جس پر رشک کیا جاتا… ناز کیا جاتا اور دعا کی جاتی کہ کاش ہمارا بھی کوئی ایسا دوست ہو… یہ کاش والا دوست قدسیہ میری تھی… مجھے لے کر قدسیہ بھی یہی دعویٰ کرتی کہ وہ میرے معاملے میں خوش قسمت ہے۔
قدسیہ کو جنون تھا ڈاکٹر بننے کا… ہماری دوستی کا آغاز بھی اسی لئے ہوا کہ ہم اکثر میڈیکل لائف کو ڈسکس کرتے تھے،اپنے پلانز ایک دوسرے کو بتاتے تھے… میں اور وہ سکول لائف سے ہی ڈاکٹر میگزین پڑھنے کے عادی تھے،میں اپنی خالہ سے آسٹریلیا سے منگواتی تھی جبکہ قدسیہ ایک سٹور سے ڈھونڈ کر پڑھتی تھی…
میرے میگزینز اس کے میگزینز کے مقابلے میں بہت معلوماتی ہوتے تھے،میرے پاس مختلف میڈیکل رپورٹس پر مشتمل بکس بھی تھیں،آرٹیکلز بھی… تو قدسیہ بہت ممنون ہوتی تھی میری… میری ہی وجہ سے وہ اتنا کچھ پڑھ پائی تھی… اور میں بس اس کی اتنی ہی ممنون ہوتی تھی کہ وہ مختلف آرٹیکلز کو میرے ساتھ ڈسکس کر لیتی ہے جو کہ کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔
دوستی کے معاملے میں،میں ذرا مختلف انسان تھی،دوستوں کے مخصوص ہنگامے،لڑنا جھگڑنا،شور شرابا مجھے متاثر نہیں کرتے تھے،اگر قدسیہ بھی میری دوست نہ ہوتی تو شاید کوئی بھی نہ ہوتی،قدسیہ سے دوستی بھی بہت سست روی سے آگے بڑھی تھی،ایک سال تک تو میں نے اسے اپنا نمبر ہی نہیں دیا تھا اس نے دو تین بار مانگا مگر میں نے نظر انداز کر دیا… مجھے کوئی خاص ضرورت نہیں تھی کہ میں اس سے سکول سے آنے کے بعد بھی فون پر بات کروں… قدسیہ بہت بولتی تھی اور اس کا کہنا تھا کہ اسے اکثر میری یاد آتی ہے… چھٹی کے بعد فوراً گھر جاتے ہی اسے میری یاد آنے لگتی تھی… پھر رات تک وہ مجھے ایک دو بار فون کر لیتی۔
تعلیم کے علاوہ میری اپنی مصروفیات تھیں اور مجھے عادت نہیں تھی کہ میں ادھر ادھر کے لوگوں کو بھی اپنی مصروفیات میں شامل کروں نہ ہی قدسیہ میرے لئے وہ دوست تھی جس کے کان میں گھس کر میں اسے اپنی ہر بات،ہر خیال اور ہر خواب سنایا کرتی،میں خود اپنی دوست تھی… میرے گھر میں میرا مذاق اڑایا جاتا کہ میں وہ واحد انسان ہوں جس کیلئے کبھی نہیں کہا گیا
”حوریہ ہے گھر میں،میں اس کی دوست ہوں“ مجھے اس طرح اپنا مذاق اڑائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا… بہت بچپن میں ایک بار ڈیڈ نے مجھ سے کہا تھا۔
”کسی دوست کا نہ ہونا ایک بڑی خامی ہے۔“
مجھ میں یہ خامی تھی… قدسیہ کے ہوتے بھی تھی… میں نے کبھی اس کا تذکرہ اپنے گھر نہیں کیا تھا… میں غیر ضروری باتیں کرنے کی عادی نہیں تھی… ڈیڈ کہتے انہیں میرے حد سے زیادہ پریکٹیکل مزاج سے ڈر گتا ہے۔
”ڈر کیوں؟“ میں چڑ گئی۔
”تمہارے اپنے پیمانے ہیں اور ان پیمانوں میں گنجائش بھی نہیں… لچکدار رہو اپنے اندر گنجائش پیدا کرو۔
“
مجھے بات ہی سمجھ میں نہیں آئی تو عمل کیا کرتی۔
یہ سب سکول لائف کی باتیں تھیں،کالج آنے میں قدسیہ کی سب سے اچھی دوست بن چکی تھی… میرے ایک دن کالج نہ جانے پر وہ خاصا ہنگامہ کرتی تھی،میرے بیمار ہو جانے پر وہ بہت بار فون کرتی تھی،اب بھی میرا مذاق اڑایا جاتا تھا کہ میں نے خالص ماؤں کی طرح خیال رکھنے والی دوست کہاں سے ڈھونڈی ہے… مجھ سے زیادہ اسے فکر ہوتی تھی کہ میرے بال رف ہو رہے ہیں،ناخنوں کی چمک ماند پڑ چکی ہے اور گالوں پر سے دانوں کے نشانات آخر کیوں نہیں جا رہے۔
قدسیہ جانتی تھی کہ اسے کب بولنا ہے اور کب خاموش رہنا ہے،میں قدسیہ کے ساتھ بہت مطمئن تھی کالج میں ہم ایسی بیسٹ فرینڈز مشہور تھیں جو ایک دوسرے کے علاوہ کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ میرے کالج جانے سے پہلے قدسیہ کی کافی ہائے ہیلو تھی کالج میں مجھے بہت کوفت ہوتی تھی جب آتے جاتے،اٹھتے بیٹھتے لڑکیاں پانچ پانچ،دس،دس منٹ کیلئے قدسیہ سے گپ شپ کرتی تھیں،میں نے قدسیہ سے کچھ کہا تو نہیں لیکن قدسیہ کافی سمجھ دار تھی،آہستہ آہستہ قدسیہ نے اپنا حلقہ محدود کر لیا،سب ہی اسے پسند کرتے تھے وہ ہر لڑکی کو اس کے نام سے اخلاص سے جانتی تھی اور اچھے نظریے سے جانتی تھی،اس کے منہ سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں نکلتی تھی جو کہ سننے والے کو بری لگے
..........................